غالب یاد آتا ہے
From the Blog socialdenter بذریعہ ٹی وی پتا چلا کہ آج مرزا اسد اللہ خان غالب کی برسی ہے۔ تب سے میں سوچ رہا ہوں کہ غالب پہ کیا لکھا جائے۔ میں کوئی لکھاری نہیں، احساسِ ضرورت اور ضرورتِ احساس مجھ سے لفظ اگلواتے ہیں اور میری بس اتنی سی ادبی خدمات ہیں۔ خیر اسد اللہ خان غالب کا نام میرے نزدیک جدتِ احساس کا علم ہے۔ مجھے ان لوگوں پہ ترس ضرور آتا ہے جو غالب کی ضروریات کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے مفلس ترین شخص بنا دیتے ہیں یا کہیں اس کو اہلِ تصوف کا سرخیل بنا ڈالتے ہیں۔ شاید ہم اس قدر جناب دار سوچ کے مالک ہیں کہ اتنے قد کو بھی صرف اپنی سوچ کے سائے سے ناپتے ہیں۔ ہم غالب کو یہ کیوں نہیں لکھتے کہ وہ لاشعور کی ان مسافتوں کو پار کر گیا جن پہ آج تک احساس کے مسافر رُکے کھڑے ہیں اور لب و رُخسار سے ہٹ نہیں پا رہے۔ بلکہ یہاں احساس کی بجائے فن لکھا جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔ اب اس کو انسانی نفسیات کا شاعر کہا جائے تو بھی بے pakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment