خود کے آلاؤ خود کی جھونپڑی
From the Blog mahmoodulhaq پھولوں کی طرف بڑھنے پر کانٹے آستینوں کی طرف لپکے،زرا سنبھل کر پلٹے تو پھول مسکرا کر ہوا کے رخ جھوم اٹھے۔ہر بار جانے سے پہلے آنے کا قصد کر تے تو ارادہ ہوا کی لہر پر آواز بن کر مخبری کر دیتا۔ ایک مہک جاتا ، ایک اُداس لوٹ جاتا۔ گلستان میں پھر کسی نے جھانک کر آنے کی خبر دی ۔ خوشبو تو ہوا سے لپٹ کر احساس کو معطر کر دے گی مگر جذب کرب کی سولی پر لٹکا رہے گا۔ جب شہروں کی پابندی راس نہ آئے تو جنگل کی طرف بھاگتے ہیں۔ جہاں ہوا، پانی اور گھاس پر سینکڑوں ہزاروں لاکھوں ٹکر سے محفوظ رہنے کے لیے سرخ سبز اشارے کے پابند نہیں ہوتے کیونکہ اُن کے ارادے پکے ہوتے ہیں اور مقصد واضح ۔ نام ان کے کہیں فخر و غرور اور کہیں گالم گلوچ میں تشبیہ و استعارہ ہو جاتے ہیں، پھر بھی شکوے ان کے آسمان سے نہیں ہوتے۔ جب اکیلا آنا لکھا ہو اور جانا تنہا،تو پلٹ کر اٹھکھیلیاں کیسی۔زندگی کا سفر سمندر کی لہر نہpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment