قتیل شفائی کی سدا بہار غزل
From the Blog ranaii-e-khayal غزل جب بھی چاہیں اِک نئی صورت بنا لیتے ہیں لوگ ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ مل بھی لیتے ہیں گلے سے اپنے مطلب کیلئے آ پڑے مشکل تو نظر یں بھی چُرا لیتے ہیں لوگ خود فریبی کی انھیں عادت سی شاید پڑ گئی ہر نئے رہزن کو سینے سے لگا لیتے ہیں لوگ ہے بجا اِن کی شکایت لیکن اس کا کیا علاج بجلیاں خود اپنے گلشن پر گرا لیتے ہیں لوگ ہو خوشی بھی ان کو حاصل یہ ضروری تو نہیں غم چھپانے کیلئے بھی مسکرا لیتے ہیں لوگ اس قدر نفرت ہے ان کو تیرگی کے نام سے روزِ روشن میں بھی اب شمعیں جلا لیتے ہیں لوگ یہ بھی دیکھا ہے کہ جب آجائے غیرت کا مقام اپنی سولی اپنے کاندھے پر اُٹھا لیتے ہیں لوگ روشنی ہے اُن کا ایماں روک مت اُن کو قتیل دل جلاتے ہیں یہ اپنا ،تیرا کیا لیتے ہیں لوگ قتیل شفائی pakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment