تاریخ کا مقدمہ، تہزیبی نرگسیت اور سانحہِ چارسدہ
From the Blog pakteahouse *تحریر: راجہ قیصر احمد* [image: charsada] یہ خیال و ملال اور شوق و وصال کی ایک سرما زدہ شام ہے اور میں سہ پہر کی اس میلی دھوپ میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں بیٹھے دھند و کہر میں لپٹے اسلام آباد کو دیکھ رہا ہوں اور اپنی خاموشی سے ہمکلام ہوں۔ دکھ و اندوہ کی عجیب سی کیفیت ہے۔ سچ یہ ہے کہ میں اداس ہوں۔ اور بہت اداس ہوں۔میری اداسی اور بے دلی نے مجھے ایسی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے کہ میں سوچنے کی حالت میں نہیں ہوں۔ چار سو سناٹا ہے اور ایک مہیب سی خاموشی۔ یہ ایک نا خوشگوار شام ہے اپنی پوری فضا کے ساتھ نا خوشگوار شام۔ ہوا عبث کی فضا میں بہہ رہی ہے اور میں بے کیفی میں سانس لے رہا ہوں۔ سوال پوچھنا غداری نہیں چارسدہ حملے : اب عملی اقدامات کرنا ہوں گے چارسدہ یونیورسٹی میں مرنے والے مویشی نہیں انسان تھے کتنے خورشید و ماہتاب آہنگ بنتے ہوئے بجھ چکے اور کتنے دِن گُل اور کتنی راتیں ڈھل چکیں مpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment