قلم ٹوٹتے رہے سیاہی بدلتی رہی
From the Blog mahmoodulhaq لکھنے کے لئے کاغذقلم ہاتھ میں لئے دہائیاں گزر گئیں۔ قلم ٹوٹتے رہے سیاہی بدلتی رہی ، کاغذ ہاتھوں سے میلے ہوتے رہے۔ہم بڑے ہو گئے قلم کتابیں چھوٹ گئیں اور کاغذ پر چھپی ڈگریاں ہاتھ لگتی رہیں۔ہم خیال کی اونچائی سے حقیقت کی کھائی میں اترنے لگے۔ دوستوں نے تنہائی کے احساس پر ٹائم پاس کا مرہم رکھا۔جو چاہا وہ پاس نہ آیا ، جس سے دور بھاگے وہ گلے پڑ گیا۔زندگی بعض اوقات انسان سے کھیلتی ہے۔ امتحان سے گزارتی ہے پھر نہ ہی وہ پاس ہوتا ہے اور نہ ہی فیل ، بس ورکشاپ میں ہتھوڑا ،اوزار پکڑوانے والا چھوٹا یا ایک ہی جماعت میں جونئیر کو خوش آمدید اور اگلی جماعت میں ترقی کرنے والوں کو الوداع کہنے والا بن کر رہ جاتا ہے۔ ماضی انسان کا پیچھا کرتا ہے ،کبھی خوف بن کر، کبھی پچھتاوا کی صورت، کبھی ندامت تو کبھی سر کشی کا کوڑا بن کر جو بدکے ہوئے گھوڑے پر چابک برسا کر غصہ کی حالت سے اسے تابعداری کی طرف مائل کرتpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment