اے وطن ۔ ۔ ۔
From the Blog theajmals نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں چلی ہے رَسم کہ کوئی نہ سر اُٹھا کے چلے جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے نظر چُرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے ہے اہلِ دل کے لئے اب یہ نظم بست و کشاد کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد بنے ہیں اہل ہوَس مُدعی بھی مُنصف بھی کسے وکیل کریں کس سے مُنصفی چاہیں بِچھا جو روزن زِنداں تو دل یہ سمجھا ہے کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی چمک اُٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے کہ اب سحر ترے رُخ پر بِکھر گئی ہوگی یوں ہی ہمیشہ اُلجھتی رہی ہے ظُلم سے خَلَق نہ ان کی رسم نئی ہے ۔ نہ اپنی رِیت نئی یوں ہی ہمیشہ کھِلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول نہ ان کی ہار نئی ہے ۔ نہ اپنی جیت نئی اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں گر آج اَوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا یہ چار دن کی خدائی تو کوئیpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment