افسانہ : مفت ہوئے بدنام
From the Blog ranaii-e-khayalمفت ہوئے بدنام محمد احمد پہلی بار جب یہ بات میڈیا پر نشر ہوئی تو میں بھی دہل کر رہ گیا کہ اب نہ جانے کیا ہوگا ۔ مجھے تو یہ بھی خوف ہو گیا تھا کہ طفیل صاحب سارا معاملہ میرے ہی سر نہ تھوپ دیں ۔ اُن سے بعید بھی نہیں تھی بعد میں شاید وہ مجھ سے اکیلے میں معافی مانگ لیتے لیکن تب تک ہونی ہو چکی ہوتی۔ طفیل صاحب ٹیکنیکل بورڈ میں اسسٹنٹ کنٹرولر ایگزیمینیشن ہیں اور میری بد قسمتی دیکھیے کہ میں اُن کا بھی اسسٹنٹ ہوں۔ تین سال قبل جب میں اس پوسٹ پر تعینات ہو ا تو ان دنوں طفیل صاحب بھی اس عہدے پر نئے نئے ہی تھے۔ کچھ عرصہ کام سمجھنے میں لگا پھر اُس کے بھی کافی بعد یہ سمجھ آیا کہ اصل کام یہ نہیں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کنٹرولر صاحب کو یہ بات پتہ تھی یا نہیں لیکن میں اور طفیل صاحب یہ بات اچھی طرح جان گئے تھے کہ بہت کم بچے محنت کرکے پاس ہوتے ہیں۔ باقی بچے یا تو فیل ہو جاتے ہیں یا پھر اُن کا پاس ہوpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment