میرے حقوق ۔ ایک فتنہ
From the Blog theajmals موضوع پر آنے سے پہلے متعلقہ حوالہ پرانے زمانے سے میں 1950ء میں مسلم ہائی سکول اصغر مال راولپنڈی میں آٹھویں جماعت میں داخل ہوا ۔ بہت جلد چند ہمجاعتوں سے میری دوستی ہو گئی ۔ منصوبہ بنایا گیا کہ ہم سب پیسے ڈال کر رسالہ تعلیم و تربیت لیا کریں اور اس میں دی اچھی باتوں سے مستفید ہوں ۔ یقینی طور پر ہمارے سدھار میں اس رسالے کا اہم کردار رہا ۔ اس رسالے میں ایک کارٹون چھپا کہ ماں بیٹے سے کہتی ہے "بات کرنے سے پہلے سوچا کرو"۔ بیٹا کہتا ہے "اور سوچنے سے پہلے ؟" ماں کہتی ہے "یہ کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں"۔ کچھ شماروں کے بعد ایک کارٹون چھپا جس میں ماں نے حلوے کی پلیٹ بھر کر میز پر رکھی تو بیٹا کہتا ہے "امی ۔ بھائیجان کیلئے اتنا زیادہ حلوہ"۔ ماں کہتی ہے "یہ تمہارے لئے ہے"۔ بیٹا کہتا ہے "اتنا کم"۔ کہنے کو یہ دو کارٹون یا لطیفے ہیں مگر مجھے زندگی کے ہر قدم پر یاد رہے ۔ میں نے پچھلی چار دہایئوں میں اpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post

0 comments :
Post a Comment