وظیفے کا کرشمہ
From the Blog seems77 *وظیفے کا کرشمہ* * (فرح رضوان)* رضیہ بھی ہر روز کی جھک جھک سے تنگ آ چکی تھی۔ اس لیے اپنی بہن کی بات کو بہت دھیان سے سن رہی تھی۔ رضیہ کے میاں کا غصّہ اس سے چھپا ہوا نہیں تھا۔ وہ گھٹی گھٹی رہتی اور بچے سہمے رہتے تھے۔ وہ میاں کے لیے طرح طرح کے کھانے بناتی، وقت پر اسکے کپڑے تیار رکھتی، اس کے رشتے داروں کی خوب خاطر مدارات کرتی، لیکن میاں کی بد مزاجی میں کمی نہ آتی۔ اور گونگی تو وہ بھی نہ تھی۔ سو اس اکثر ظلم کے خلاف بول اٹھتی، اور یوں جھگڑے کی ایک نہ ختم ہونے والی ابتدا ہوجاتی۔ جاننے والوں میں کوئی کہتا کہ نظر لگ گئی ہے۔ کوئی کہتا یہ تو جادو یا بندش کا معا ملہ لگتا ہے۔ انہی خدشات کو ذہن میں رکھ کر اس کی بہن کسی خاتون کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہوئے رضیہ کو اس کے پاس چلنے پر اکسا رہی تھی- ''بجو! ایمان سے وہ کوئی جعلی پیر نہیں، ایک پیسہ نہیں لیتی، جب سے ہمارے محلے میںpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
Anxiety and the Well-Lived Life
From the Blog awaisaftab"Needless to say, our fixation on the ideal of happiness diverts our attention from collective social ills, such as socioeconomic disparities. As Barbara Ehrenreich has shown, when we believe that our happiness is a matter of thinking the right kinds of (positive) thoughts, we become blind to the ways in which some of our unhappiness might be generated by collective forces, such as racism or sexism. Worst of all, we become callous to the lot of others, assuming that if they aren't doing well, if they aren't perfectly happy, it's not because they're poor, oppressed, or unemployed but because they're not trying hard enough. If all of that isn't enough to make you suspicious of the cultural injunction to be happy, consider this basic psychoanalytic insight: Human beings may not be pakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment