نور بجنوری کی دو خوبصورت غزلیں
From the Blog ranaii-e-khayal روح چٹخی ہوئی، جسم دُرکا ہوا دستِ سائل بھی، کاسہ بھی ٹوٹا ہُوا میرے باہر زمان و مکاں نوحہ گر میرے اندر کوئی مجھ پہ ہنستا ہُوا ہر نظر نیم جاں عقل کے زہر سے ہر صحیفے میں اک سانپ بیٹھا ہُوا وحشیوں کو بگولے اُڑا لے گئے شہر کی طرح صحرا بھی سُونا ہُوا ایک اندھی کرن بین کرنے لگی قریہ ٴ دل میں شاید سویرا ہُوا کوہکن، تیشہ و سنگ سے بے نیاز قیس، پھولوں کے بستر پہ سویا ہُوا اس جنم میں بھی جسموں کی منڈی لگی اس جنم میں بھی چاہت کا سودا ہُوا تیر بن کر لگا آج احساس پر ایک پتّہ ہواؤں میں اُڑتا ہوا ****** سر وہی، سنگ وہی، لذّتِ آزار وہی ہم وہی، لوگ وہی، کوچہء دلدار وہی اک جہنّم سے دھکتا ہُوا، تاحدِّ نظر وقت کی آگ وہی شعلہء رفتار وہی شیشہ ٴ چشم پہ چھایا ہُوا اک زلف کا عکس قریہ ٴ دار وہی، سایہ ٴ دیوار وہی عرصہ ٴ حشر کبھی ختم بھی ہوگا کہ نہیں وہی انصاف کی میزان، گناہگار وہی تم سلامت رہpakistanblogs.blogspot.comRead Full Post
0 comments :
Post a Comment